India-Maldives dispute
In South Asia, there is an ongoing tug-of-war between the two powers, India and China, to take Maldives under its sphere of influence. In past, the foreign policy of the Maldives has always been subservient to the interests of India, but it began to withdraw from its pro-India attitude when in 2014, the Maldivian President Abdullah Yameen started to increase friendship with China.
مالدیپ ہندوستان تنازعہ
جنوبی ایشیا میں دوبڑی قوتوں ہندوستان اور چین کے درمیا ن مالدیپ کو اپنے حلقہ اثر میں لینے کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔ماضی میں مالدیپ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ ہندوستان کے مفادات کی تابع رہی ہےلیکن مالدیپ نے اپنے اس ہندوستان نواز رویے سے دستبرداری کا آغاز ۲۰۱۴ ء میں کیا، جب مالدیپ کے صدر عبداللہ یامین نے چین کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کیں ۔ اب تو معاملہ اس سے کہیں آگے بڑھ چکاہے اور مالدیپ اور چین کے مابین بڑھتی قربتیں مالدیپ اور ہندوستان کے درمیان کدورت میں اضافے کی موجب بن رہی ہیں۔مالدیپ کی موجودہ حکومت اور عوام میں ہندوستان اور اس کے طرزِ عمل سے بے زاری کافی نمایاں ہے ۔دونوں ملکوں کی حالیہ چپقلش نے اس وقت شدت پکڑی جب نومبر ۲۰۲۳ء میں منتخب ہونے والے مالدیپ کے صدر محمد معیزو نےعہدہ سنبھالتے ہی ملک میں موجو د لگ بھگ ۷۷ انڈین فوجیوں کو ۱۵مارچ تک اپنے ملک واپس جانے کا حتمی الٹی میٹم دیا۔
نریندر مودی کی حکومت نے اپنے فوجیوں کی بے دخلی کے اس حکم کو انا کا مسئلہ بنا لیا اور ایک سفارتی و معاشی جنگ کا آغاز ہو گیا۔مالدیپ کے جزائر ہندوستانی سیاحوں کے لیے پرکشش سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مالدیپ میں سیاحت کے لیے آنے والے غیرملکیوں میں سب سے بڑی تعداد ہندوستانیوں کی ہوتی ہے۔ حالیہ کھینچا تانی میں مودی حکومت نے اس دوطرفہ تعلق پر ضرب لگا کر معیزو حکومت کو گھٹنوں پر لانے کی کوشش کی۔ مالدیپ کے جزائر کے مقابل مقامی جزائر کی سیاحتی حیثیت کو پروان چڑھانے کی ایک غیر معمولی کوشش میں وزیراعظم مودی نے مالدیپ سے صرف ۸۰ میل کے فاصلے پر واقع ہندوستان کے زیر انتظام جزائر لکشدیپ کا دورہ کیا اور اس کی تصاویر اپنے ٹویٹر ہینڈل پر شئیر کیں۔نتیجتاً مالدیپ کی نئی حکومت کے بعض ارکان نے عوامی انداز میں ردّعمل کا اظہار کیا۔ تین حکومتی وزرا نے سوشل میڈیا پر وزیراعظم مودی کے خلاف مضحکہ خیز پوسٹیں کیں۔ نتیجتاً بھارتی عوام بشمول بالی ووڈ اداکاروں نے، جنھیں مودی حکومت نے خاصی اہمیت دے رکھی ہے، بھرپور ناراضگی کا اظہارکیا اور آئندہ مالدیپ نہ جانے کا عزم کیا۔ حتی کہ انڈین کمپنی اِیز مائ ٹرپ(Ease My Trip) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پراشانت پتی نے بتایا کہ مالدیپ کے لیے پروازیں غیر معینہ مدت تک کے لیے بند کردی گئ ہیں ۔
اس تحریر کے پہلے حصے کا موضوع یہ ہے کہ مالدیپ اتنے لمبے عرصے تک ہندوستان کے زیراثر کیوں رہا ہے ، اور اس کے بعد اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اور اب مالدیپ ہندوستان کے اثر سے چھٹکارا کیوں چاہتا ہے۔
مالدیپ ہندوستان کے جنوب میں بحر ِہند میں وا قع لگ بھگ بارہ سو جزائر پرمشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے۔سوا پانچ لاکھ آبادی کا مالدیپ اپنی زیادہ تر ضروریات کے لیے ہندوستان پر انحصار کرتا ہے۔آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ سیاحت ہے اور زیادہ تر سیاح بھی ہندوستان سے ہی آتے ہیں۔ اگرچہ مالدیپ اپنی آزادی یعنی ۱۹۶۵ء کے کچھ سال بعد ہی جمہوریہ قرار پا گیا تھا، لیکن ۲۰۰۸ تک یہاں دو حکمرانوں نے ہی بطور صدر اقتدار سنبھالے رکھا۔ مالدیپ کی خارجہ پالیسی ایک طویل عرصہ ہندوستان کے زیرِ اثر رہی ہے۔مالدیپ پر ہندوستان کا یہ اثرو رسوخ درج ذیل عوامل کی وجہ سے ہے۔
- ۱۹۶۵ء میں مالدیپ کو برطانیہ سے آزادی ملی تو ہندوستان وہ پہلا ملک تھا جس نے اسے تسلیم کیا۔
- ۱۹۸۸ءمیں مالدیپ کے صدر مامون عبدالقیوم کے خلاف ہونےوالی بغاوت ہندوستانی فوج نے ناکام بنائی۔ مالدیپ نے اس وقت کئی ممالک بشمول پاکستان سےعسکری بغاوت کے خلاف مدد مانگی تھی لیکن ہندوستان کے علاوہ کسی ملک نے بحرِ ہند میں واقع اس چھوٹے سے ملک کی اس درخواست کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔
- ہندوستان اور مالدیپ کا زیادہ اشتراک دفاع اور سلامتی سےمتعلقہ امور میں رہا ہے۔ہندوستان مالدیپ کی فوج کو بڑے پیمانے پر فوجی تربیت کے مواقع دیتا ہے۔ گزشتہ دس برس میں ہندوستان نےمالدیپ کے کم و بیش۱۵۰۰ فوجیوں کو ٹریننگ دی ہے۔مالدیپ کی لگ بھگ ستر فیصد دفاعی ضروریات اور وسائل کا حصول ہندوستان سے منسلک رہا ہے۔
- ۱۹۹۵ء میں ہندوستان نے دارالحکومت مالے میں اندرا گاندھی میموریل ہسپتال تعمیر کیا۔ ہندوستان نے مالدیپ کو ۱۲ کروڑ روپے کی مالیت سے ٹیکنیکل ایجوکیشن کا ادارہ بھی بناکردیا۔۲۰۰۲ء میں ہندوستانی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنے دورہٴ مالدیپ کے دوران مالدیپ نیشنل یونیورسٹی میں فیکلٹی آف ہاسپٹیلٹی اینڈ ٹورزم اسٹڈیز کا افتتاح کیا۔
- ۲۰۱۸ء میں مالدیپ کے صدر ابراہیم صالح کی تقریب حلف برداری میں نریندر مودی نے شرکت کی اور دونوں ملکوں نے ترجیحی امور پر اشتراک کے لیے تعاون کا عزم کیا۔ اس کے کچھ ہی روز بعد ہندوستان نے مالدیپ کے لیے تقریبا ًڈیڑھ ارب ڈالرز کے مالی پیکج کا اعلان کیا۔
لیکن کہتے ہیں کہ بین الاقوامی دنیا میں کوئی دوستی یا دشمنی مستقل نہیں ہوتی بلکہ مستقل صرف مفادات ہوتے ہیں۔چنانچہ مالدیپ نے بھی خطے میں چین کے بڑھتے ہوئےکردار اور اس میں موجود امکانات کے پیشِ نظر چین کے بین الاقوامی ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ کا حصہ بننے میں فائدہ جانا۔صدر عبداللہ یامین مالدیپ کی اس نئی سیاسی سوچ کے روح ِرواں بن کر سامنے آئے ۔ سوال مگر یہ پیدا ہوا کہ ہندوستان کےحلقۂ اثر سے نکلنا کیونکر ممکن ہوگا۔ تعلق کی نوعیت میں کمی کی اس کوشش کا آغازمالدیپ نے ۲۰۱۸ء میں کیا، جب ہندوستان نے مالدیپ کو دوہیلی کاپٹر اور ایک بحری نگرانی اور تلاش کی صلاحیت رکھنے والا ڈورنئیر جہاز تحفتاً دیا تو مالدیپ کو ان ہیلی کاپٹروں میں ہندوستانی پائلٹوں کی موجودگی غیر ضروری سی لگنے لگی ۔ صدریامین نے ہندوستان سے کہا کہ اگر مالدیپ کو یہ ہیلی کاپٹرز تحفے میں دیئے گئےہیں تو ان ہیلی کاپٹرز میں اپنے پائلٹس رکھنے یا جہاز واپس کرنے کا اختیار بھی مالدیپ کو ہونا چاہیے۔
یہ معاملہ ابھی زیر بحث ہی تھاکہ عبداللہ یامین کی پروگریسو پارٹی ۲۰۱۹ء کے انتخابات ہار کر حکومت سے باہر ہوگئی اورڈیموکریٹک پارٹی برسراقتدار آئی جس نے واپس ہندوستان کے سایہٴ عاطفت میں جانے میں ہی عافیت جانی۔اس دوران پروگریسو پارٹی نے اپوزیشن میں رہ کر اپنے ہندوستان مخالفانہ بیانیے کو مالدیپ میں بھر پور فروغ دیا ۔ چونکہ عبداللہ یامین تو کرپشن کےالزامات میں گرفتار کرلیے گئےتھے اس لیے پروگریسو پارٹی نےمحمد معیزو کو ۲۰۲۳ء کے انتخابات میں منصبِ صدارت کے لیے نامزد کیا۔ محمد معیزو نے کرسی صدارت پر براجمان ہوتے ہی خلافِ روایت اپنا پہلا سرکاری دورہ ترکی اور چین کی طرف کیا، حالانکہ ماضی میں مالدیپ کے تمام نومنتخب صدوراپنے پہلے سرکاری دورے پر ہندوستان روانہ ہوتےتھے۔
صدر معیزو نے انتخابی منشور پر عمل کرتے ہوئے مالدیپ میں موجود ہندوستانی فوجیوں کو ۱۵ مارچ تک واپس اپنے وطن جانے کا الٹی میٹم دیا ۔انہوں نے چین کے ساتھ کئی معاہدوں پر دستخط کیے اوراسی ماہ (مارچ) میں دوستی کو آخری گرہ لگانے چین گئے جہاں دونوں ملکوں کے مابین دفاعی معاہدہ طے پایا، جس کی رو سےضرورت پڑنے پر اب چین مالدیپ کو محدود فوجی مددبھی بھیج سکتا ہے۔
یہ معاہدہ یقینی طور پر ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستان اپنے ہمسایہ ممالک پر بالادستی جمانے کے خواب میں ناکام ہورہا ہے۔مالدیپ کی سیاسی وابستگی صرف انڈیا کے لیے اہم نہیں ہے بلکہ مغربی دنیا بھی اس بارے میں بڑی فکر مند ہے۔ ۲۰۲۳ءکےانتخابات کے فوری بعد امریکہ سمیت کئی مغربی قوتوں نے مالدیپ میں اپنے سفارت خانے کھولے۔اس کی بنیادی وجہ امریکہ کی انڈو پیسیفک پالیسی ہے جس میں امریکہ جنوبی ایشیامیں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ ہندوستان کے ذریعے کرنا چاہتاہے۔
مالدیپ کے حالیہ موقف پرمختلف آراءسامنے آرہی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ مالدیپ کے موجودہ حالات دراصل چھوٹی جنوبی ایشیائی ریاستوں کے سیاسی رویے کی عکاسی کرتے ہیں، جو اس وقت چین اور ہندوستان کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ مالدیپ بھی اس وقت چینی بلاک کا حصہ بننے جارہا ہے۔چین مالدیپ میں تعمیراتی منصوبوں کا پورا جال بچھارہا ہے۔جس میں ۲۰۰ ملین ڈالر کا ”چین مالدیپ دوستی پل “بھی شامل ہے۔
مالدیپ میں بڑھتا ہوا چینی اثرورسوخ ہندوستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔چین کا ہندوستان کے بالکل عقب میں آ کر بیٹھ جانا سٹریٹجک اعتبار سے ہندوستان کے لیےکسی طور محفوظ نہیں ۔ دوسری طرف اس میں طاقت ور ممالک کے لیے یہ سبق بھی موجود ہے کہ کسی بھی دیگر ملک سے دیرپا تعلقات صرف باہم تعاون اور احترام کی بنیاد پر ہی استوار کیے جا سکتے ہیں۔ بالادستی کی سوچ یا کسی ملک کے وسائل اور جغرافیے کو یک طرفہ طور پر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کا رویہ صرف نفرتوں ہی کو جنم دیتا ہے۔ دیگر ممالک اور معاشروں سے روابط میں سوچ کا یہی فرق ہے جس کی وجہ سے چین کو پذیرائی حاصل ہو رہی ہے اور نوآبادیاتی سوچ کے حامل ممالک کا عالمی و علاقائی کردار تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔
موجودہ صورتِ حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مالدیپ کی جغرافیائی مجبوریوں کے باعث ہندوستان کے ساتھ اس کی کشیدگی زیادہ آگے نہیں بڑھے گی۔مالدیپ کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ ہندوستان کے ساتھ خراب تعلقات اس کے حق میں کارآمد ثابت نہیں ہوں گے۔ یہی وجہ تھی کہ مالدیپ نے ان تینوں وزراء کو فوری معطل کردیا جنھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے مودی کا مضحکہ اڑایا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ معاشی اشاریوں کے لیے سیاحت پر انحصار کرتی مالدیپ حکومت ہندوستان اور چین جیسی خطے کی بڑی طاقتوں کے مابین توازن کیسے برقرار رکھے گی کہ ایک جانب ملک کی معاشی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسے دفاعی خطرات کا سامنا بھی نہ ہو۔
معاز بشیر نے حال ہی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے بین الاقوامی تعلقات میں گریجویشن مکمل کی ہے۔