Dast-e-Jafa Kish aur Kashmir

Dast-e-Jafa Kish aur Kashmir

In the recently held Lok Sabha elections in India, Narendra Modi’s Bharatiya Janata Party (BJP) won for the third time in a row. But looking at the results of the two previous elections, it is estimated that this is not actually a success, but the first step towards decline.  This development was totally against the expectations of this party as it was forced to form a coalition government. It was expected to get more than four hundred (400) seats and its slogan in the elections was ‘Ab ki bar, 400 par’, but that was not to happen.


دستِ جفا کیش اور کشمیر

(سید ابرار حسین، سابق سفیر)

                بھارت میں حال ہی میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات میں نریندرا مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل ہوئی۔ مگر اس سے پہلے کے دو انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دراصل کامیابی نہیں بلکہ زوال کی طرف پہلا قدم ہے۔ کُل ۳۴۵ سیٹوں میں سے  بھارتیہ جنتا پارٹی کو ۰۴۲ نشستیں مل سکیں جبکہ ۹۱۰۲ کے انتخابات میں انہیں ۳۰۳  نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی اور ۴۱۰۲ کے الیکشن میں یہ تعداد ۲۸۲ تھی۔ گویا اس دفعہ ان کی نشستوں میں بیس فیصد کمی ہوئی اور بی جے پی حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ ۲۷۲ نشستیں بھی حاصل نہ کرسکی۔مجبوراً  اسے ایک اتحادی حکومت بنانا پڑی۔ یہ پیشرفت اس پارٹی کی توقعات کے بالکل برعکس تھی کیونکہ اس کو چار سو (۰۰۴) سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی اُمید تھی او ر انتخابات میں اس کا نعرہ تھا     ’اب کی بار، چار سو پار‘  لیکن اے بسا آرزو کی خاک شدہ۔

                 الیکشن کے دوران بی جے پی کی مسلم دُشمنی عیاں رہی۔مودی اپنی انتخابی تقریروں میں گُھس بیٹھیے اور زیادہ بچے پیدا کرنے والے کہہ کہہ کر مسلمانوں کی تضحیک کرتا رہا۔ منتخب ہونے والے چوبیس (۴۲) مسلمان ارکینِ پارلیمان میں سے کسی کا تعلق بھی بی جے پی یا اس کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس سے نہیں ہے۔جبکہ اکیس (۱۲) کا تعلق  کانگریس والے انڈیا الائنس سے ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے صرف ایک ہی مسلمان اُمیدوار کھڑا کیا تھا جو کیرالہ کے حلقے سے تھا  اور وہ جیت نہیں پایا۔ 

                اس صورتِ حال میں کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بھارتی عوام کی طرف سے نفرت کی سیاست سے بیزاری کے اظہار کا مودی سرکار پر کچھ مثبت اثر ہوگا اور وہ اب اقلیتوں کے خلاف ظلم و ستم  سے باز آجائیں گے۔ مگر ابھی تک اس کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔بلکہ اب تو بھارتیہ جنتا پارٹی کی یہ کوشش لگتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح کشمیر اسمبلی میں بھی اکثریت حاصل کرلے تاکہ وہاں بھی اپنی مرضی کی قانون سازی کرسکے۔اگر اکیلے یہ ممکن نہ ہو تو وہ مرکز کی طرح کشمیر میں بھی کسی اتحاد کا حصہ بن سکتی ہے۔ کشمیر اسمبلی کے انتخابات بھارتی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ستمبر میں متوقع ہیں۔ان انتخابات کے پیشِ نظر، بھارتی حکومت نے کشمیر میں وزیر اعلیٰ کے انتظامی اختیارات بھی گورنر کو سونپ دیے ہیں تاکہ سب کچھ بلا واسطہ مرکزی حکومت کے ہاتھ میں رہے۔ مگر پھر بھی بی جے پی کو یقین نہیں ہے کہ وہ وہاں کامیابی حاصل کر پائے گی۔ اسی لیے دہشت گردی کو بہانہ بنا کر وہاں انتخابات ملتوی کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں جن کی عمر عبداللہ نے بھی مخالفت کی ہے۔

                حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا بڑے عرصے سے بھارتیہ جنتا پارٹی  کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ۴۱۰۲ کے الیکشن میں یہ پارتی منشور کا حصہ بنا اور مودی اور اس کے ساتھیوں نے یہ طے کرلیا کہ مکر، زور، زبردستی جیسے بھی ہو سکے اس پر عمل کرنا ہے چاہے اس کے لیے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ہی توڑنا پڑیں۔ چنانچہ اگلے کئی سال کشمیریوں کے حوصلوں کو پست کرنے کے لیے اُن پر ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھا گیا، ان پر پیلٹ گنوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا،  سینکڑوں کشمیری جوانوں کو خون میں نہلا دیا گیا اور ہزاروں کو پابندِ سلاسل کیا گیا۔  بالآخر ۹۱۰۲ میں آئین کے آرٹیکل  ۰۷۳ کا خاتمہ کرکے کشمیر کے بارے میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی گئی،  مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی سے پوچھے بغیر اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور لداخ کو ایک الگ علاقہ بنادیا گیا۔ مگر سلام ہے کشمیریوں کے عزم و ہمت کو جنہیں بھارتی مظالم جُھکا نہیں سکے اور نہ ہی نو (۹) لاکھ کے قریب بھارتی افواج کا جبر و ستم اُن کے دلوں سے آزادی کی لگن کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ اب  ۵ اگست ۹۱۰۲ کے بعد سے بھارت ایک منصوبے کے تحت کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس مقصد کے لیے بنایا جانے والا حدبندی کمیشن مودی حکومت کے مکروہ عزائم کا آئینہ دار ہے جس کے اقدمات کے نتیجے میں وہاں لاکھوں غیر کشمیریوں کوکشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ مل گئے ہیں، اُن کے لیے کشمیر میں نوکریوں کے حصول کو آسان بنایا گیا اور اُنہیں وہاں زمین و جائیداد خریدنے کی اجازت دی گئی ہے۔یہی نہیں، کشمیریوں کو ان کی زمینوں اور جائیدادوں سے محروم کیا جارہا ہے اور اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں ضبط کی جاچکی ہیں۔ یہ سب اقدامات سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔کشمیری جو پچھلے ستتر (۷۷) سال سے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے قربانیاں دے رہے تھے،  اب  اپنے گھر بار  اور جائیداد سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔ یہ ایک نہایت تشویش ناک صورتِ حال ہے۔ اور اس سب کا مقصد یہی ہے کہ کشمیر میں کسی نہ کسی طرح بھارت کے حامیوں کی اکثریت ہوجائے اور کشمیر اسمبلی میں بی جے پی اور اتحادی جماعتوں کو اتنی نشستیں حاصل ہوجائیں کہ وہ اپنی نام نہاد اکثریت کا ڈھونگ رچا سکیں اور کشمیریوں کے جذبہئ آزادی کو کُچلنے اور کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو دوام دینے کے لیے اپنی مرضی کے قوانین بنا سکیں۔

                آج جب بھارت کا دستِ جفا کیش ایک دفعہ پھرروحِ آزادیئ کشمیر کو پامال کرنے کی کوشش کرہا ہے، آئیے اقبال کے ساتھ مل کر اس دعا میں شریک ہوجائیں کہ:

 توڑ اُس دستِ جفا کیش کو یاررب جِس نے

 رُوحِ  آزادیئ  کشمیر  کو   پامال   کیا

               

Share this post