Riwayat, Jiddat aur Islam ka Nazaria-e-Ilm
This piece is based on a talk delivered by Prof Dr Mohiuddin Hashmi, dean, Department of Arabic and Islamic Studies, Allama Iqbal Open University (AIOU), Islamabad, at IPS on August 1, 2023, during a session titled ‘Tradition, Modernity and the Muslim Epistemology’.
روایت، جدت اور اسلام کا نظریۂ علم
پروفیسر ڈاکٹرمحی الدین ہاشمی
(ڈین شعبہ عربی و علومِ اسلامیہ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد)
اس میں شک نہیں کہ نظریۂ علم کی وضاحت سے بہت سے فکری مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ زیرِ بحث موضوع پر ہماری جامعات میں بہت کم گفتگو کی جاتی ہے جبکہ مغربی جامعات میں اس موضوع کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت حاصل ہے ۔ روایت اور جدت بھی ایک علمیاتی مسئلہ ہے اور اس کا epistemology سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اگر اس موضوع کو علمیاتی پسِ منظر کے بغیر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو روایت یا جدیدیت کا ایک سطحی سا مفہوم سامنے آجاتا ہے یا پھر معاملہ خلطِ مبحث کا شکارہو جاتا ہے۔
اسلام کے نظریۂ علم کے مطابق علم کے دو بنیادی ماخذ ہیں، وحی اور کائنات ۔ کسی بھی قسم کے علم کا حصول ان دو مصادر سے ممکن ہوتا ہے۔ماخذِ اول یعنی وحی، اللہ کی صفت اور قدیم ہے جبکہ ماخذِ ثانی یعنی کائنات اللہ کی مخلوق اور جدیدہے ۔ کلامی بحث میں وحی کو قدیم جبکہ کائنات کوحادث یا جدید کہا جاتا ہے۔اس پس منظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدید کے فہم اور تطبیق کے لیے ہمیں قدیم سے رہنمائی لینی چاہیے ۔ہمارےفقہی سرمائے میں مسکوت کو منطوق سے ملانے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کا معنی یہ ہے کہ جن اشیاء پر شارح نے سکوت اختیار کیا ہے اور ایسے پیش آمدہ نئے مسائل جن کا تعلق اجتہاد سے ہے، ان کے فہم کے لیے اس سے رہنمائی حاصل کی جائے جو شارح نے نطق کر دیا ہے۔
جہاں تک نصوص کا تعلق ہے اس میں دو چیزیں ہیں ،قطعیات اور ظنیات۔ قطعی نصوص سے ہمیں علم ِقطعی حاصل ہوتا ہے جس کے متعلق ہمارا نظریہ ہے کہ یہ ناقابلِ تغییر ہے، اس کو تقدس کا درجہ حاصل ہے اور اس پر اصولِ حرکت و اصول ِارتقا ء جاری نہیں ہوتا۔نصوصِ ظنیات کو شارح نے اپنی حکمتِ بالغہ کے تحت ظنی رکھا ہے حالانکہ اگر وہ چاہتا تو انہیں قطعی بھی رکھ سکتا تھا۔ ان ظنیات میں حرکت و ارتقاء کا اصول بھی لاگو ہوتا ہے اور اجتہاد کا عمل بھی کار فرما ہوتا ہے۔ اس فرق کو سمجھنے میں قران مجید کی یہ آیت رہنما ہے۔
كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ
پس معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے کلمہ طیبہ کی مثال شجر طیبہ کے ساتھ دی ہے اور شجرہ طیبہ وہ درخت ہے جس کی اصل ثابت، ناقابل تغیر اور اپنی جگہ برقرار ہے مگر اس کی فروع آسمان کی طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ قدیم اصل و ثابت ہے اور فروع پر وقت و زمانے کے ساتھ اجتہاد کے ذریعے عمل کیا جا سکتا ہے۔
دنیا میں دو نظریہ ہاے علم ہیں، Religious Epistemology اور Secular Epistemology۔ سیکولر علم میں علم کا مصدر صرف کائنات ہے۔ اس نظریے کے مطابق روایت/ قدیم کی اہمیت تو معلوم ہے لیکن اصل اور معیار جدید ہی ہے۔ مغربی نظریۂ علم میں روایت اور جدت کا مفہوم اسلامی روایت سےخاصا مختلف ہے ۔ مغربی فکر میں تاریخی حوالہ سے موجود مذاہب کی نصوص محفوظ نہیں ہیں اور ان کی مذہبی روایات میں اجتہاد جیسی روایت ہمیشہ سے نہیں رہی۔ مختصرا ً سیکولر نظریۂ علم کا مصدر کائنات ہے، اصل اور معیار جدید ہے، مذہبی نصوص محفوظ نہیں اور اجتہاد کے مماثل کوئی روایت موجود نہیں۔
ایک فکری پسِ منظر یہ ہے کہ مغربی نظریہ علم کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جب ترقی کر رہے تھے تو ان کا قدیم ان کی ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کا قدیم ان کی راہ میں رکاوٹ کبھی نہیں بنا۔ مغرب میں materialism اور modernism کے پیچھے یہی نظریاتی اساس ہے۔اسلامی فکر میں اجتہاد کا ادارہ ہمیشہ سے رہا ہے ۔ اجتہاد کا تو موضوع ہی جدید ہے۔ اجتہاد ان مسائل کے حل کا نام ہے جو اشیاء نص میں موجود نہیں مگر حال میں درپیش ہوں۔ اگرچہ یہ جدید کو ایڈریس کرتا ہے مگر یہ جدید مسلم روایت سے جدا نہیں اور اسی کا حصہ ہے۔
انبیاء و رسولوں کی بعثت پر غور کیا جائے تو ایک تو وہ رسول تھے جو نئی شریعت لاتے تھے اور دوسرے انبیاء جو نئی شریعت تو نہیں لاتے تھے بلکہ بنیادی طور پر جدید ہی کو ایڈریس کرنے کے لیے آتے تھے۔ ان کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا تھا کہ اپنے زمانے کے حالات و مسائل کو گزشتہ شریعتوں کے روشنی میں حل کیا جا سکے ۔حضور کی بعثت کے ساتھ جب نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہو گیا تو اب جدید کو ایڈریس کرنے کی یہ ذمہ داری انبیاء کی بجائے علماء کے سپرد ہوئی ۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ علماء سے مراد کون ہیں ؟ اور اس پر مسلم ایپیسٹمولوجی میں مکمل بحث موجود ہے۔ لیکن نبوت کے اختتام کے ساتھ جس ادارے کا اجراء ہوا وہ اجتہاد کا ادارہ ہے ۔ اب قیامت تک کے لیے اس جدید کو ایڈریس کرنا علماء و مجتہدین کی ذمہ داری ٹھہری ۔ یوں ختم نبوت کے ساتھ ایک لازمی ادارے کا آغاز ہوا جو اجتہاد کہلاتا ہے۔ یعنی ختمِ نبوت و اجتہاد باہم لازم و ملزوم ہیں۔اصولِ ختم نبوت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اجتہاد کے ادارے کو اسی طرح فعال رکھا جائے جیسا یہ اپنے اولین زمانے میں تھا۔
اسلامی فکر میں جدت کو سمجھنے کے لیے اسلامی و مغربی افکار یکسر مختلف ہیں۔ اسلامی فکر کے روشنی میں جدت کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں دو ادارے ملتے ہیں اجتہاد اور تجدید۔اجتہاد ہمیں نئے پیش آمدہ مسائل کا حل دیتا ہے جبکہ تجدید بنیادی طور پر تراش خراش کا نام ہے۔ یعنی جس چیز کی اصلیت پسِ منظر میں چلی جائے اسے درست کرنا تجدید کہلاتا ہے۔
آج مسلم فکر کا المیہ یہ ہے کہ روایت کے دفاع میں پیش پیش وہ لوگ ہیں جو خود اپنی روایت سے یا تو بالکل بھی یا پھر کما حقہ آگاہ نہیں۔یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ورنہ جدت سے نمٹنے کے لیے شریعت کا دیا گیا in-built نظام خود ہماری روایت ہی کا حصہ ہے اور اس سے اپنی روایت کے برخلاف کوئی چیز سامنے نہیں آتی۔ اجتہاد کے عمل کی کمزوری کی وجہ سے گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مسلسل امتِ مسلمہ کا زوال دیکھنے میں آتا ہے۔ کیونکہ جدت سے نمٹنے اور ان اِزمز (isms)کے جواب میں اپنا کوئی نظام دینے کے لیے ان کا درست فہم اور تنقید کے لیے ایک نئی فکر کا لانا اجتہاد ہی کا کام ہے۔ یاد رہے کہ اجتہاد صرف فقہی مسائل کو ہی ایڈریس نہیں کرتا بلکہ یہ تمام فکری، تعلیمی، قانونی اور سماجی مسائل سے نمٹنے کے کام آتا ہے۔
اجتہاد کی دو اقسام ہیں۔ ایک اجتہاد بالقیاس ہے جبکہ دوسرا اجتہاد بالمقاصد۔ آج کے دور میں جدت کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے اجتہاد بالقیاس ناکافی ہے اور اجتہاد کی دوسری قسم یعنی اجتہاد بالمقاصد پر زیادہ عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی مثالیں قرونِ اولی میں بالخصوص خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ اور دیگر مجتہدین کے اجتہاد سے واضح ہوتی ہیں ۔وہ اجتہاد بالمقاصد کو ہی عمل میں لائے ۔ آج بھی اسی اجتہاد کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں ہماری فکر، تہذیب اور روایت کا وہ حال ہو جاتا ہے جس کی جانب اقبال نے اشارہ کیا ہے کہ
تمدن، تصوف، شریعت، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
یعنی جب ہم اجتہاد اور تجدید کی روایت کو زندہ و فعال اور طاقت ور نہیں بناتے تو یہی ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ ہماری فکری اساس(شریعت، تصوف، تمدن) بتانِ عجم کا روپ دھار لیتی ہے۔
——-
]منیبہ راسخ، جونیئر ریسرچ آفیسر، آئی پی ایس، کی مرتب کردہ یہ تحریر ڈین شعبہ عربی و علومِ اسلامی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد، پروفیسرڈاکٹر محی الدین ہاشمی کی یکم اگست ۲۰۲۳ء کو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں Tradition, Modernity and the Muslim Epistemologyکے عنوان کے تحت ہونے والے مذاکرے میں کی گئی گفتگو پر مبنی ہے۔ مذاکرے کے دیگر شرکاء میں پروفیسر ڈاکٹر علی عباسی، صدربین الاقوامی المصطفٰی یونیورسٹی، ایران، پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اور پروفیسر ڈاکٹر مستفیض احمد علوی،صدر شعبہ فکر و ثقافتِ اسلامی ، نمل شامل تھے۔]
*اس سیمینار کی مکمل ویڈیو کے لیے دیکھیے: https://www.youtube.com/watch?v=on_Wl9Fwe8I
جبکہ اس نشست میں پیش کردہ اہم مباحث سے متعلق مختصر تحریر اس لنک پر موجود ہے: https://www.ips.org.pk/tradition-modernity-and-the-muslim-epistemology-2/